کیا آپ ایک ہتھوڑی اور چھینی کی مدد سے ایک چٹان توڑ سکتے ہیں
تحریر: عبدالصمد سعید جرمنی
کیا آپ ایک ہتھوڑی اور چھینی کی مدد سے ایک چٹان توڑ سکتے ہیں ؟
اس سوال کا جواب اکثریت اثبات میں دے گی ..
مگر کیا، آپ ایک ہتھوڑی اور چینی کی مدد سے ایک پورا پہاڑ کاٹ سکتے ہیں ؟
غالباً ایسا سوال کرنے پر لوگ سوال کرنے والے کو ہی پاگل قرار دیں گے …
مگر یہ نا قابل یقین واقعہ در حقیقت بھارت میں پیش آیا جب دشرتھ مانجھی نامی ایک شخص نے ایک پہاڑ کو تن تنہا بائیس سال کی جد و جہد کے بعد کاٹ کر گاؤں والوں کے لئے ایک راستہ بنایا جس کی وجہ سے وہ شہر جہاں پہنچنے کے لئے گاؤں والوں کو پچھتر کلو میٹر تک سفر کرنا پڑتا تھا مختصر ہو کر ایک کلو میٹر تک سمٹ گیا -
دشرتھ مانجھی کے اس کارنامے کے پیچھے ایک الم ناک کہانی تھی- ان کی اہلیہ ایک حادثے کا شکار ہوئیں اور بر وقت طبی امداد نہ ملنے کی وجہ سے انکا انتقال ہو گیا کیوں کہ قریب ترین ڈاکٹر ستر کلو میٹر دور تھا - یہ المناک واقعہ دشرتھ مانجھی کے لئے ایسی تحریک بنا کہ انہوں نے دل میں ٹھان لی کہ اب اس گاؤں سے کسی کا پیارا یوں بے بسی کی موت نہیں مرے گا-
دنیا کی تاریخ ایسے ہی حیران کن کارنامہ انجام دینے والوں سے بھری پڑی ہے - مگر اکثر ایسے کارناموں کی بنیاد کوئی تحریک و ترغیب ہوتی ہے جس کی وجہ اکثر کوئی المیہ، ناکامی، یا پھر کمی ہوتی ہے اور ان کو محسوس کرنے والا ایک حساس دل .. مگر یہ عنقا ہو تو پھر ترقی بھی نا پید ہے - در حقیقت ہر شعبہ زندگی میں انسانی ترقی کا سفر بھی ان بنیادی افکار کے بغیر ممکن نہ ہوتا اور شاید انسان کا سفر صدیوں تک دائروں میں جاری رہتا
شاعر مشرق کو بھی ان افکار کی اہمیت کا خوب احساس تھا اور نوجوانوں کے لئے وہ فرما گئے ہیں کہ
خدا تجھے کسی طوفاں سے آشنا کر دے
کہ تیری بحر کی موجوں میں اضطراب نہیں
جب ایک پاکستانی اپنا وطن چھوڑ کر کسی اور دیس جاتا ہے تو ایک کٹھن زندگی کا آغاز ہو جاتا ہے- بقا کی ایسی جنگ شروع ہوتی ہے جس کا جیتنا آسان نہیں ہوتا- گھر سے لے کر باہر تک سارے فرائض کی انجام دہی کے ساتھ ساتھ تنہائی ، گھر اور گھر والوں سے دوری بعض پردیسیوں کے لئے ڈپریشن کا سبب بھی بن جاتی ہے- بہت سارے ایسے ہوتے ہیں جو واپسی کا رخت سفر باندھ لیتے ہیں - کچھ خودکشی کا ارادہ تک کر بیٹھتے ہیں- بڑےشہروں میں صورت حال پھر بھی بہتر ہوتی ہے جہاں تھوڑی بہت ہی سہی مگر کمیونٹی موجود ہوتی ہے - چھوٹے شہروں میں مگر صورت حال مزید سنگین ہوجاتی ہے جہاں کان مانوس بولی سننے اورآنکھیں مانوس چہرے دیکھنے کو ترس جاتی ہیں- یہ بات بظاہر تو معمولی محسوس ہوتی ہے مگر جن پر یہ گزرتی ہے وہ اچھی طرح جانتےہیں کہ اجنبیت جب تاریک موسم اور سردی کے ساتھ گٹھ جوڑ کر لے تو ذہنی صحت کے لئے کتنی تباہ کن ثابت ہو سکتی ہے- بد ترین حالات میں نوبت خود کشی تک بھی پہنچ جاتی ہے اور ایسے کئی واقعات خبروں کا حصہ بھی بنے ہیں-
چندسال میں جرمنی آنے والے حسن رضا نے اس بات کو شدت کے ساتھ محسوس کیا اور سوچا کہ اپنے بے وطن ہم وطنوں کے لئے کچھ ایسا کیا جائے کہ اجنبیت اور وطن سے دوری کا احساس کم سے کم ہو - یہی سوچ تحریک بنی اردو ریڈیو ڈوئچ لینڈ کی جس کی بنیاد انہوں نے چار سال پہلے رکھی- اس سفر کا آغاز اتنا ہی کٹھن تھا جیسا ہر مشکل کام کی ابتدا میں ہوتا ہے - یعنی نہ راستہ سجھائی دیتا ہو ،نہ راستہ دکھانے والا ، مگر دل شکنی کرنے والی زبانیں بہت ہوں - یہ کام بہت مشکل ہے، نہیں کامیاب ہو سکتا ، کون دلچسپی لے گا وغیرہ وغیرہ - مگر جذبے اور نیت صادق ہو تو منزل مل ہی جاتی ہے- اردو ریڈیو ڈوئچ لینڈ کو منزل تو نہیں ملی مگر راستہ مل ہی گیا ہے - ایک فرد کی سوچ سے جنم لینے والا یہ ادارہ اب ایک کارواں بنتا جا رہا ہے جس میں اب ہم خیال اور مخلص لوگ جوق در جوق شامل ہو رہے ہیں-
اردو ریڈیو ڈوئچ لینڈ فی الوقت جرمنی اور باقی یورپ میں موجود پاکستانیوں اور اردو زبان سے آشنا لوگوں کے لئے ایک اہم پلیٹ فارم ہے- اس میں نا صرف اردو میں ریڈیو پروگرام پیش کے جاتے ہیں بلکہ اس کا دائرہ کار ویڈیو پروگرام تک بھی پھیلا ہوا ہے- ویڈیو پروگرامز اردو ریڈیو ڈوئچ لینڈ کے ویب ٹی وی کے ذریعے پیش کیے جاتے ہیں-
ریڈیو پر ادب و ثقافت کا رنگ لئے تفریحی اور معلوماتی پروگرام پیش کئے جاتے ہیں جس میں پاکستانی موسیقی کو اہم جگہ دی جاتی ہے- ایک با صلاحیت ٹیم ان پروگرام کو تیار اور نشر کرتی ہے - پروگرام پیش کرنے والوں میں ایک بڑا حصہ ان با صلاحیت خواتین و حضرات کا ہے جن کے چاہنے والوں کی تعداد میں دن بدن اضافہ ہو رہا ہے-
ویڈیو شوز میں ایک اہم حصہ تو ان ساری سرگرمیوں کو کوریج دینا ہے جو پاکستانی کمیونٹی جرمنی کے طول و عرض پرمنعقد کرتی رہتی ہے- جرمنی کے مختلف شہروں میں پاکستانی طلبا و طالبات کی طرف سے منعقد کی جانے والی تقریبات کو خصوصی توجہ دی جاتی ہے تاکہ یہ سرگرمیاں نظروں سے اوجھل نہ رہنے پائیں- جرمنی کے مختلف شعبوں میں نمایاں خدمات انجام دینے والے پاکستانیوں سے انٹرویوز بھی لئے اور نشر کیے جاتے ہیں جس سے جرمنی کے اندر اہم پاکستانی شخصیت اور ان کے کاموں سے آشنائی اور رابطوں کو فروغ ملتا ہے- پاکستان میں اہم شعبوں مثَلاً سماج، فن، سیاست، اور کاروبار سے متعلقہ افراد سے انٹرویو بھی اردو ریڈیو ڈوئچ لینڈ کے مقاصد کا اہم حصہ ہے جس سے وہ پاکستانی نسل جو جرمنی یا یورپ میں پیدا ہوئی اور پرورش پا رہی ہے اسے بھی اپنے آباؤ اجداد کی زبان اور ثقافت کو بہتر طور پر سمجھنے کے مواقع میسر آتے ہیں-
اردو ریڈیو ڈوئچ لینڈ ایک خالص رضا کارانہ بنیادوں پر چلنے والا ادارہ ہے جس کا مقصد مالی فوائد کا حصول نہیں ہے - اس کی ترقی میں حصہ ڈالنے والے اکثر لوگ جرمنی کی جامعات میں زیر تعلیم طلبہ و طالبات ہیں- جرمنی میں مختلف اداروں سے وابستہ پروفیشنل لوگ جو ملک ، کمیونٹی، اور زبان کے فروغ کے جذبے سے سرشار ہیں، وہ بھی اپنے کاموں سے فارغ ہو کر اس کی ترویج و ترقی میں حصہ ڈالتے ہیں-
غرض یہ کہ اردو ریڈیو ڈوئچ لینڈ ایک ایسا پلیٹ فارم ہے جس سے اردو زبان، جرمنی اور باقی یورپ کے اندر، اور پاکستان تک رابطوں کو فروغ مل رہا ہے- جس سے ہماری زبان اور ثقافت کو اجنبی زمینوں پر بھی نئی توانائی سے پھلنے پھولنے کا موقع مل رہا ہے- حوصلوں سے سرشار ٹیم ادارے کو نئی بلندیوں تک پہنچانے کے لئے پر عزم ہے اور منزل چاہے جتنی بھی دور ہو اور راستہ جتنا بھی کٹھن ہو، اردو ریڈیو ڈوئچ لینڈ کا مشن جاری رہے گا !
Comments
Post a Comment