Alina Naz Chilasi

تحریر: علینہ ناز چلاسی۔


" ایک بار پهر ایسا نہ ہو"


1947 سے قبل گلگت بلتستان کے مختلف علاقوں پر کئی یلغاریں ' اندرونی ٹوٹ پھوٹ ' بیرونی حملے اور ٹوٹی بنتی تہذیبوں کا ارتقا اپنی رفتار سے چلتا رہا. آزادی سے قبل گلگت کے زیادہ تر علاقے بالواسطہ اور کچھ علاقے بلاواسطہ ریاست جموں کشمیر کے زیر انتظام چل رہے تھے چونکہ گلگت بلتستان ریاست کی تیسری اکائی تھی اور گلگت بلتستان کی جغرافیائی اہمیت ماضی میں بھی اہمیت کے حامل رہی..."سلک روٹ" کے ذریعے چین کے ساتھ رابطہ اس وقت بھی قائم رہا اور بہت سارے تاجر اسی راستے سے تجارتی سامان لاتے تھے. گلگت بلتستان میں برطانیہ کی بالواسطہ نمبرداری کو عالمی سطح پر چین اور روس دونوں مشکوک نظروں سے دیکھتے تهے یہی وجہ تهی روس نے گلگت بلتستان میں اپنا اثرو رسوخ بڑھانے کیلئے حکمت عملی تیار کی اور کچھ جاسوس گلگت بھیجے. بعض تاریخ دانوں کے مطابق روس کے تین جاسوس برطانوی اسسٹنٹ پولیٹیکل ایجنٹ نے گلگت کے علاقے میں قتل بھی کئے ہیں. جب 14 اگست 1947 کو پاکستان معرض وجود میں آیا اور مسلمانوں کے ایک خواب کی تعبیر کے چرچے ہمالہ کے پہاڑیوں سے بھی ٹکرانے لگے تو معلوم ہوا کہ قائداعظم نامی مسلمان لیڈر کی قیادت میں " پاکستان " کے نام سے ایک آزاد و خود مختار مملکت دنیا کے نقشے پر ابھری ہے حالانکہ قیام پاکستان میں گلگت بلتستان کے لوگوں کا کوئی کردار نہیں رہا ہے.. پاکستان کے قیام کے بعد عالمی حالات گلگت بلتستان میں بھی بدلنے لگے اور روس کا خطے پر بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کو دیکھتے ہوئے میجر براون جیسے لوگوں نے بھی بغض روس اور چین میں گلگت بلتستان کے باغیوں کا ساتھ دیا.. حریت فکر سے سرشار گلگت بلتستان کے جذباتی جوان جو ڈوگرہ فوج اور برٹش آرمی میں عساکر تهے انہوں نے اپنی فوج سے بغاوت کرتے ہوئے گلگت بلتستان کو ڈوگرہ تسلط سے آزاد کرانے کیلئے میدان میں اترے اور بہت جلد عوامی حمایت حاصل کرنے میں کامیاب بھی ہوئے. اکتوبر اور نومبر 1947 میں دنیائے تاریخ کی ایک ایسی آزادی کی جنگ لڑی گئی جس میں جانی و مالی نقصان نہ ہونے کے برابر جبکہ موجود حکومت کا تختہ الٹ دیا گیا. ریاست جموں کشمیر کا گلگت بلتستان میں متعین گورنر " گهنسار سنگهہ " کو گرفتار کیا گیا اور انہیں بونجی پہنچایا گیا جہاں سے وہ سلامت کشمیر روانہ ہوئے. ان تمام حالات میں برٹش آرمی کے میجر براون گلگت بلتستان کی جنگ آزادی میں مقامی آبادی کے ساتھ پیش پیش رہے. یکم نومبر 1947 کو گلگت اور مضافات کے کچھ علاقے آزاد ہوئے جبکہ بلتستان اور داریل تانگیر کی پوزیشن یکسر مختلف تهی. 16 نومبر تک گلگت آزاد ریاست کی حیثیت سے دنیا کے نقشے پر موجود رہا مقامی فیصلہ ساز افراد کی رائے سے راجہ شاہ رئیس خان کو ریاست کا صدر اور کرنل حسن خان کو گلگت آرمی کا چیف آف آرمی سٹاف مقرر کیا گیا. میر آف ہنزہ اور میر آف نگر کیجانب سے قائد کو لکھے گئے خطوط کی روشنی میں قائد کے احکامات کو سامنے رکھتے ہوئے صوبہ سرحد کے خان عبد القیوم خان نے ایک نائب تحصیلدار سردار عالم کو گلگت کے حالات اور عوامی پلس جاننے کیلئے گلگت روانہ کیا.. سردار عالم خان کچھ ملکی کرنسی کے ساتھ جب گلگت پہنچے تو ریاست کے صدر کیجانب سے نہ صرف شاندار استقبال کیا گیا بلکہ راجہ شاہ رئیس خان نے خود کو سول سپلائی میں ملازم بهرتی کرنے کی درخواست بھی سردار عالم کو پیش کی..پهر کیا تھا جس کرسی سے گهنسار سنگهہ کو بھگایا گیا تھا وہی پر سردار عالم براجمان ہوئے اور گلگت کا نظم و نسق سردار عالم نے سنبھالا اور موصوف نے گلگت میں ایف سی آر نافذ کیا. 14 اگست 1948 کو بلتستان آزاد ہوا اور 1952 میں ایک باقاعدہ معاہدے کے تحت داریل و تانگیر بھی پاکستان کے زیر انتظام گلگت بلتستان کا حصہ بنے یوں مختلف وقتوں میں تین الگ الگ اکائیاں ون یونٹ بن گئیں. یکم نومبر کو گلگت بلتستان کی آزادی کے طور پر منایا جاتا ہے اور اس دن ہم اپنے اسلاف کی قربانیوں کو خراج تحسین تو پیش کرتے لیکن اپنا محاسبہ نہیں کرتے. اصل میں یہ دن اپنے محاسبے کا ہے اس دن ہمارے اسلاف نے جس اتحاد کا مظاہرہ کیا تھا وہ مثالی اور ہمارے لیے مشعل راہ ہے اور بدقسمتی یہ ہے کہ آزادی سے لیکر آج تک ہم اپنے رویوں میں توازن اور اپنی سرشت میں بلوغت نہ لا سکے. ریاستی صدر سے نائب تحصیلدار کے سفر سے لیکر انتظامی یونٹ سے آرڈر تک تمام اصلاحات ہماری بلوغت کا اظہار ہیں. ہم جتنے زیادہ نابالغ ہوں گے اتنے ہی کچے نظام ملیں گے. ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم آزادی کی قدر سے بڑهہ کر سیاسی' علمی ' مذہبی اور سماجی بلوغت میں اضافہ کریں... یکم نومبر کا دن یہ درس دیتا ہے کہ ہم تمام تر تعصبات سے بالاتر ہو کر انسانی بنیادوں پر سوچیں... آج کے دن کا پیغام ہے کہ ہم خوش فہمیوں سے باہر نکل کر حقائق کا سامنا کریں اور گلگت بلتستان کیلئے نئی تاریخ رقم کریں. ہمیں ڈنڈوں کلہاڑیوں اور بے سروسامانی کی تکرار سے باہر نکل کر ایک بار پھر گلگت بلتستان پر بدلتے ہوئے عالمی منظر نامہ کو دیکھنا ہوگا...کہیں ایسا نہ ہو کہ ہم خوش فہمیوں اور آزادی کے جشن مناتے مناتے جس طرح 1947 کے عالمی منظر نامہ کو نہیں سمجھ سکے تهے اب کے بار بهی کہیں ایسا نہ ہو.

 

Comments

Popular posts from this blog

SAS is bringing you Gojal Youth Camp Season 6 in Karachi in collaboration with the Gulmit Young Stars Students Welfare Organization & Sports Club!! Gojal Youth Camp Season is an initiative of the Student Aid Society (SAS). This year’s theme is Empower360: Navigating Paths and Shaping Minds. GYC serves as a platform to build confidence, go beyond the syllabus, engage in positive activities, and take a break from the routine schedule. GYC Season 6 will be a one-day camp in Karachi, Pakistan. The modules include Emotional Intelligence & Mindfulness, Art for Mental Wellbeing, Fostering Creativity & Innovation. We have field experts on board for these modules, making this edition unique. Our goal is to educate and create awareness beyond the syllabus, providing the best possible solutions for our youth. The camp is scheduled for Sunday, January 14, 2024, at the Aga Khan Gymkhana Karachi. Please note: This camp is for youth aged between 16-24 years old, belonging to any village of Gojal. It is a one-day camp starting at 8 AM and concluding at 5 PM. Participants will receive refreshments, lunch, and camp shirts along with stationary support. Camp Fee: PKR 1800/- For registration, please fill out the Google form: https://forms.gle/X5Dnx1qySd8tN8mp6 For queries, please contact us at: Phone: +92 346 2205557